تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
حوزہ نیوز ایجنسی। افغانستان کے حالات بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ امریکی قیادت میں نیٹو فورسز نے مسلسل بیس سال افغانستان پر قبضہ جمائے رکھا اور افغان وسائل کو بری طرح سے لوٹا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی و یورپی عوام کو مسلسل بے وقوف بنائے رکھا اور اب جب بیس سال بعد خطے سے بھاگ رہے ہیں تو آگ و خون کا کھیل عروج پر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو مارنے و زخمی کرنے کے بعد افغانستان کو سول وار کے حوالے کرکے جانا ظلم ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کے دو سو چالیس میں سے اسی اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ نے دنیا بھر کا پیسہ اکٹھا کرکے چار لاکھ فوجی تیار کیے تھے، امریکی افواج کے نکلنے کے اعلان کے ساتھ ہی وہ شکست خوردگی میں ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں افغان سپاہی ہتھیار ڈالتے ہیں، گھر کا کرایہ وصول کرتے ہیں اور پوسٹ چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔
افغانستان کے پشتونوں کی وابستگیاں طالبان کے ساتھ ہیں، اس لیے پشتون سپاہی اور عوام طالبان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں افغان صدر مدد کے لیے وائٹ ہاوس پہنچے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ نے کہا کہ ہمارے فوجی جا رہے ہیں، فوجی مدد جاری رہے گی، ایک لالی پوپ دینے کی کوشش کی ہے۔ ابھی تک امریکہ کی نصف کے قریب فوج افغانستان میں ہے تو طالبان نے افغان حکومت کی درگت بنا دی ہے، جب یہ چلی جائے گی تو دور سے کیا خاک مدد ہوگی؟ افغان صدر اشرف غنی ان دنوں آرمی چیف اور وزیر دفاع کو تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ بدانتظامی اور عدم اعتماد کی انتہا ہے کہ ملک کو جنگ درپیش ہے اور عہدوں کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ ویسے تو پورے ملک میں عدم تحفظ کی لہر ہے، مگر کابل کے سفارتی حلقے شائد طالبان کی آمد کی آہٹ کو جلد محسوس کر رہے ہیں۔ کابل میں سفارتکار تک ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر طالبان آگئے تو ہمارا کیا ہوگا۔؟
طالبان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم قتل عام نہیں کریں گے مگر اعتبار کون کرے؟ کیونکہ 1998ء میں گیارہ ایرانی سفارتکار مار دیئے گئے تھے۔ انہی خدشات کے پیش نظر آسٹریلیا نے اپنی ایمبیسی مکمل طور پر بند کر دی ہے۔ سفارتکاروں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ کام کرنے والے پندرہ ہزار ڈرائیور، باورچی اور مترجم بہت زیادہ پریشان ہیں کہ طالبان انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے پچاس ہزار رشتہ دار ہیں، ان سب کو امریکی ویزہ دینا ایک بڑے پروسس کا متقاضی ہے، اس پر وقت لگے گا۔ امریکہ کو بھی پتہ ہے کہ اب وقت کم ہے، اس لیے انہیں پہلے کسی تیسرے ملک میں بھیج کر وہاں سے ان کا ویزہ پروسس کرکے انہیں امریکہ کا ویزہ دیا جائے گا۔ نیٹو اور مریکی فوسز کے سو مترجمین امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں کہ انہوں ویزے نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں تھا، جن لوگوں نے کام کیا، اب انہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ اب انہیں نقصان پہنچایا جائے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کو کس قدر غیر محفوظ شہر بنا دیا ہے کہ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
اس بدامنی میں مہاجرین کا سیلاب آنے کا خدشہ ہے، جس سے حسب سابق پڑوسی ممالک کو اس سے نمٹنا پڑے گا۔ آج کی صورتحال وزیراعظم پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے اپنے خطاب میں بتا دی تھی کہ سول وار کا خدشہ ہے، جو سچ ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ جیسے جیسے طالبان کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں، ویسے ویسے ان کے خلاف لوگ بھی اٹھ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے متحدہ حکومت بنانے کی تجویز دی، جس میں سب گروہ شامل ہوں۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ کو کسی بھی صورت میں اڈے دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم امن میں شریک ہیں، جنگ میں شریک نہیں ہیں۔ یہ دونوں باتیں افغانستان اور خطے کے لیے انتہائی مناسب تھیں مگر ان پر توجہ نہیں دی گئی۔
ترکی کے پانچ سو فوجی افغانستان میں موجود ہیں، جو موجود رہیں گے، ان کے حوالے سے مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ ترک فوجی کابل ائرپورٹ کے دفاع کو یقینی بنائیں گے اور دوسرا افغان فورسز کو تربیت دیں گے۔ طالبان نے ترکی کے افغان سرزمین پر رہنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا کہ 2019ء کے معاہدے کے مطابق تمام نیٹو فورسز نے افغانستان سے نکلنا ہے اور ترکی کی افواج بطور نیٹو فورس یہاں موجود تھیں۔ اس لیے ان کی کسی بھی قسم کی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ترکی امریکہ سے روس معاہدے کی وجہ سے خراب تعلقات کو بحال کرنا چاہتا ہے، اس لیے ذرا امریکی مفادات میں بڑھ بڑھ کر خود کو پیش کر رہا ہے۔ ورنہ پانچ سو ترک فوجی کوئی بڑی تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ ایک علامتی موجودگی ہے، مگر ترک حکومت ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
سب سے اہم سوال کہ عام افغان کیا سوچ رہا ہے؟ طالبان ہوں یا افغان حکومت ہو، سب سے زیادہ متاثر تو افغانستان کا عام شہری ہی ہوتا ہے۔ اپنے جغرافیہ کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے بیچ پس جانے والے افغان اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں، مگر جنگ اب بھی ان کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
روس گیا تو خانہ جنگی شروع ہوگئی، طالبان اور شمالی اتحاد کی جنگ رہی اور اب امریکہ جا رہا ہے تو ایک اور سول وار راستہ دیکھ رہی ہے۔ 1960ء سے جاری یہ کشمکش اب تیسری افغان نسل دیکھ رہی ہے۔ روس امریکہ، چین و یورپ کو اپنے مسائل اپنے بارڈرز کے اندر حل کرنے چاہیں، دوسروں کی زمین اور خون کی قربانی کا مسلسل سلسلہ روک دینا چاہیئے۔ یہ افغان عوام کی خواہش اور ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ پرامن افغانستان میں زندگی گزاریں اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیئے۔
نوٹ: اس مضمون میں دی گئی رائے مصنف کی ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔